جنرل اختر عبدالرحمان شہید اور آئی ایس آئی محمد نوریز خان

قدیم اور جدید عسکری تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ جنگیں خفیہ ایجنسیوں کے بل پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ جن لوگوں نے دنیا کے عظیم فاتحین کی داستان حیات پڑھی ہے، ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ان کی جنگی فتوحات میں سب سے اہم فیکٹر ان کی خفیہ ایجنسیاں تھیں۔ بقول فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی، خفیہ ایجنسیاں فوج کی آنکھیں ہوتی ہیں، جن سے وہ اپنے دشمن کو دیکھتی، اس کے خلاف حکمت عملی وضع کرتی اور فتح حاصل کرتی ہے۔آج بھی دنیا کے سبھی ممالک اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوں کو لامحدود بجٹ فراہم کرتے ہیں، ان کو طاقتور سے طاقتور بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں، اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی ملکی سلامتی سے متعلق اہم اور بنیادی فیصلے کرتے ہیں۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) کی بنیاد 1948ء رکھی گئی، لیکن اس کو عالمگیر شہرت سوویت یونین کے خلاف افغٖانستان کی سرزمین پر لڑی جانے والی گوریلا جنگ کے دوران حاصل ہوئی، جب جنرل ضیاالحق کے معتمد خاص جنرل اختر عبدالرحمان اس کی سربراہی کر رہے تھے۔افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد 22 مارچ 1989ء کو واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ:”17 اگست 1988 ء تک، جب جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان نے شہادت پائی، آئی ایس آئی تیسری دنیا کی سب سے موثر اور جدید ترین انٹیلی جنس ایجنسی کا مرتبہ حاصل کر چکی تھی اور یہ مغربی سفارت کاروں اور عسکری مبصرین کی متفقہ راے ہے۔“ آئی ایس آئی نے یہ پوزیشن کیسے حاصل کی، اس کی بھی ایک کہانی ہے، جو جون 1979ء سے اگست 1988ء تک پھیلی ہوئی ہے۔ جون 1979ء میں آئی ایس آئی چیف محمد ریاض خان حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے تو نئے چیف کے لیے جنرل ضیاالحق کی نگاہ انتخاب جنرل اختر عبدالرحمن پر پڑی۔ ایک ایسے وقت میں یہ ذمے داری ان کے سپرد کی گئی، جب پاکستان اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بڑی مشکل صورت حال سے دوچار تھا۔ افغانستان عدم استحکام کا شکار تھااور مہاجرین کا کوئی نہ کوئی قافلہ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان میں داخل ہو رہا تھا۔ ایران میں ڈھائی ہزار سالہ شہنشائیت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور امام خمینی کی قیادت میں ایرانی معاشرہ ایک انقلاب کے عمل سے گزر رہا تھا۔ پاکستان کے اندر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاالحق کے خلاف اپوزیشن متحد ہو چکی تھی۔ان غیر واضح حالات میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی خفیہ ایجنسی را پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوچکی تھی۔ آئی ایس آئی اس وقت تک پیشہ ورانہ لحاظ سے اوسط درجہ کی خفیہ ایجنسی تھی اور پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کو موثر طور پر ناکام بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ جنرل اختر عبدالرحمان نے مگر یہ مشکل ترین چیلنج قبول کیا اور آئی ایس آئی چیف بنتے ہی اسے ایک موثر خفیہ ایجنسی بنانے کے لیے اپنی تمام صلاحتیں صرف کر دیں۔ نئی اور بہترین افرادی قوت بھرتی کی۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر جفاکش جوان اور ذہین افسر اکٹھے کیے۔ ان کو ہر طرح کے وسائل فراہم کیے۔ ان کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تریبت کی۔اس طرح اپنی محنت، مہارت اور لگن سے کچھ ہی عرصہ میں آئی ایس آئی کو پیشہ ورانہ لحاظ سے ایک ایسی زبردست فورس میں تبدیل کر دیا، جس پر ہر طرح کے حالات مٰیں فوج انحصار کر سکتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے قدرت کو جنرل اختر عبدالرحمن اور آئی ایس آئی سے کوئی بہت بڑا کام لینا مقصود ہے۔ یہ اندازہ اس وقت سچ ثابت ہوا کہ دسمبر 1979ء میں افغانستان میں وہ میدان کارزار گرم ہو گیا، جس کے لیے دست قد رت جنرل کی پرورش کر رہا تھا۔روسی فوجیں اپنے بکتر بند دستوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو گئیں اور عملی طور پر اس کو اپنے مقبوضات میں شامل کر لیا۔ پاکستان کے پاس اب دو راستے تھے، پہلا یہ کہ چپ سادھ لی جائے، دوسرا یہ کہ روسی فوجوں کے خلاف افغان مزاحمت کا ساتھ دیا جائے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی بطور آئی ایس آئی چیف رائے یہ تھی کہ روس کو اگر افغانستان میں نہ روکا گیا، تو اگلی باری پاکستان کی ہوگی۔جنرل ضیاالحق کی بھی یہی رائے تھی۔ بہرحال اس جنگ میں پاکستان کو بالواسطہ طور پراپنا کردار ادا کرنا تھا، گویا عملی طورپر یہ جنگ آئی ایس آئی کو لڑنا تھی۔ آئی ایس آئی نے یہ جنگ کس طرح لڑی اور جیتی، دنیا کی جنگی تاریخ کا یہ ایک انتہائی ولولہ انگیز باب ہے۔ امریکہ کے عسکری امور کے ماہر بروس رائیڈل نے افغانستان پر اپنی تحقیقی کتاب what we won: America s Secret War in Afghanistan 1979 – 89 میں اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ: یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی، جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو لیڈرشپ، ٹریننگ اور سٹریٹجی مہیا کی اور یہ افغان عوام اورپاکستان ہی تھے، جنہوں نے اس عظیم جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی سربراہی میں آئی ایس آئی نے اندرون ملک بھی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور ثبوت دیا۔ جولائی 1980ء کے پہلے ہفتے میں ایک مذہبی گروہ نے اسلام آباد میں عملی طور پر سول سیکرٹریٹ کا محاصرہ کرلیا، دفاتر بند ہو گئے، حکومتی مشینری مفلوج ہو گئی۔ جب وزارت داخلہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، تو صدر نے یہ مشن جنرل اختر عبدالرحمن کو سونپا، جنہوں نے بغیر کسی خون خرانہ کے انتہائی مہارت کے ساتھ اس کو اس طرح حل کیا کہ مذہی گروہ نے محاصرہ ختم کر دیا اور مطمئن ہو کر گھر چلا گیا۔کچھ عرصہ بعد جب کچھ فوجی افسروں نے یوم پاکستان کی پریڈ پر صدر پاکستان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، تو یہ منصوبہ بھی آئی ایس آئی نے پکڑا اور ناکام بنایا۔ اسی طرح جب اسلام آباد میں کچھ مشتعل مظاہرین نے عین اس وقت امریکن سنٹر کو آگ لگا دی کہ اس کے اندر امریکی عملہ بھی موجود تھا، تو جنرل اختر عبدالرحمن نے ہی بطور آئی ایس آئی چیف ریسکیو آپریشن کی نگرانی کی اور ان امریکیوں کو بحفاظت باہر نکالا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی نگرانی اور ہدایت پر ہونے والی ایسی بہت ساری اندرونی اور بیرونی کارروائیاں ہیں، جن کا ذکر ریاست کی رازداری کے پیش نظر ان سطور میں نہیں کیا جا سکتا۔ مارچ 1987ء میں جب جنرل اختر عبدالرحمن کو فورسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنایا گیا تو آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا تھا۔17 اگست 1988ء کو جب جنرل اختر عبدالرحمن، جنرل ضیاالحق کے ساتھ ہی شہید کر دیے گئے، تو بہت کم لوگوں کو آئی ایس آئی کے اس عظیم جنرل کے نام اور کام سے آگاہی تھی، لیکن پھر اس راکھ کے ڈھیر سے ان کی فوجی عظمت اس طرح شعلہ بن کر نمودار ہوئی کہ پوری دنیا ششدر رہ گئی

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *