سانحہ بہاولپور،تازہ انکشافات

تحریر: محمد اصغر عبداللہ

17 اگست 1988 ء کے فضائی سانحہ کو جس میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان سمیت پاک فوج کی اعلیٰ ترین قیادت آن واحد میں لقمہ اجل بن گئی، آج قریب قریب تیس برس ہو چکے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے جنرل ریٹائرڈ خواجہ ضیاالدین سے میری ملاقات ہوئی۔ پس منظر اس کا یہ تھا کہ مجھے معلوم ہوا، اس سانحہ کے وقت خواجہ صاحب بریگیڈئر کے عہدہ پر تھے اور جنرل ضیاالحق کے نئے ملٹری سیکرٹری کے طور پر ان کا انتخاب عمل میں آ چکا تھا۔ اگست کے اواخر میں انھوں نے اپنی ڈیوٹی جوائن کرنا تھی۔ بعد میں اس انتخاب کے تحت ہی جنرل ضیاالحق کے بعد وہ جنرل مرزااسلم بیگ کے ملٹری سیکرٹری مقرر کیے گئے۔ اس طرح17 اگست 1988 ء پر جو پہلی تحقیقاتی رپورٹ تیار ہوئی ، اس کے بارے میں ان کی معلومات براہ راست ہیں۔ دوران گفتگو، جنرل ( ر ) خواجہ ضیاالدین نے ایک بڑی عجیب بات بتائی۔ کہنے لگے، سی 130 ہرکولیس جہاز محفوظ ترین جہاز سمجھا جاتا تھا اور اس وقت تک اس کے ساتھ حادثات کی کوئی لمبی چوڑی تاریخ وابستہ نہیں تھی۔ مگر، جنرل ضیاالحق کے زیراستعمال جہاز بہت پرانے ہوچکے تھے۔ اس بنا پر ان کو کئی بار یہ رائے دی گئی کہ اب انھیں تبدیل کرلیں ، مگر انھوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی ( یاد رہے کہ جنرل ضیاالحق کے زیراستعمال دو سی 130 جہاز تھے ۔ یہ دونوں جہازائر بیس پر تیار کھڑے رہتے تھے اور سیکورٹی کے نقطہ ء نظر سے بالکل آخری لمحوں میں یہ فیصلہ کیا جاتا تھا کہ جنرل ضیاالحق کس جہاز میں سفر کریں گے )17 اگست کی سہ پہر کو جیسے ہی مجھے ان کا جہاز کریش کر جانے کی اطلاع ملی تو میرا پہلا تاثر یہی تھا کہ یہ حادثہ ہی ہو گا؛ کیونکہ کچھ عرصہ اس طرح کے ایک امریکی سی 130 جہاز کو بھی کسی پراسرار خرابی، جس کا مسکن اس کی ٹیل بتائی جاتی تھی، کی وجہ سے حادثہ پیش آ چکا تھا، تاہم اس کا عملہ معجزانہ طور پر محفوظ رہا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے بعد بھی کافی عرصہ تک میں17 اگست کے سانحہ کو محض ایک حادثہ ہی سمجھتا رہا ۔ مگر پہلی بار میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا، جب میں بطور آئی ایس آئی چیف روس کے دورے پر گیا اور وہاں میری روسی جنرلوں اور کے جی بی کے افسروں سے ملاقات ہوئی۔ مجھے یاد ہے، اورآج پہلی بار میں آپ کے ساتھ اپنا یہ تاثر شیئر کر رہا ہوں کہ ایک روز برسبیل تذکرہ افغانستان میں سوویت یونین کی پسپائی اور17 اگست کے سانحہ کا ذکر ہوا، تو ایک روسی جنرل نے بڑے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا؛ جنرل ضیاالحق اور ان کے آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمان نے افغانستان میں ہمارے ساتھ جو کچھ کیا، وہ ہم کیسے معاف کرسکتے تھے۔ روسی جنرل نے جس لب ولہجہ میں یہ بات کہی، اس کے بعد میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ اس کے آخری الفاط کا اشارہ 17 اگست 1988 کا واقعہ ہی ہے۔ پہلی بار میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اگر 17 اگست کا سانحہ کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی سازش تھی اور یقیناً روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کا بھی اس میں کوئی نہ کوئی کردارتھا۔ حقیقتاً 17 اگست 1988 ء کے سانحہ کے آگے پیچھے عالمی حالات وواقعات کا جو ایک طویل سلسلہ ہے، وہ بجائے خود کے پیچھے چھپے کرداروں کو بے نقاب کر دیتا ہے۔مثلاً اوجڑی کیمپ اور جونیجو حکومت کی برطرفی کے فوراً بعد جون 1988ء میں سینر وزیرمحمداسلم خان خٹک نے جنرل ضیاالحق کو یہ اطلاع بہم پہنچا دی تھی کہ ان کی زندگی سخت خطرے میں ہے۔ ان کے الفاظ تھے ، خدا کیلئے اپنی سیکورٹی پر کوئی کمپرومائز نہ کریں ۔ دراصل کچھ ہی گھنٹے پہلے ان کو افغانستان کے اندر سے انتہائی باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی’ واد‘ کا ایک سپیشل یونٹ ، جس کو ’کے جی بی‘ کی معاونت بھی حاصل ہے، کو جن لیڈروں کی ہٹ لسٹ دے کر پاکستان میں داخل کیا جا رہا ہے ، ان میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کے نام سرفہرست ہے۔ اس سے پہلے مئی میں سوویت یونین کی طرف سے جنرل ضیاالحق کو بالواسطہ طو رپر مجاہدین کی امداد بند کرنے کیلئے کہا گیا اور ساتھ ہی دھمکی دی گئی کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ جنرل ضیاالحق کا جواب تھا، بحیثیت مسلمان میرا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ لہٰذا اس طرح کی دھمکیوں سے مجھے مرعوب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دسمبر 1989ء میں ریڈرزڈائجسٹ نے فوجی امور کے ماہر John Barronکی ایک تحقیقی رپورٹ’’ کیا جنرل ضیاالحق کو قتل کیا گیا‘‘ کے عنوان سے شائع کی ، جس میں 17 اگست کے سانحہ کے حوالہ سے پہلی بار کچھ اہم نکات اٹھائے گئے۔ مثلاً یہ کہ بہاولپور میں ٹینکوں کی جس نمایش کو دیکھنے کیلئے جنرل ضیاالحق گئے یا ان کو اس کیلئے آمادہ کیا گیا، اس کیلئے ان کا جانا ضروری نہیں تھااور جنرل اختر عبدالرحمان تو پہلے اس میں جا ہی نہیں رہے تھے۔ مگر حیران کن طور پر دونوں کو ایک بالکل ایک غیر اہم نمایش دیکھنے پر راضی کر لیا گیا ۔ سانحہ کی جو ابتدائی رپورٹ پاکستانی اور امریکی ائرفورس کے انکوائری بورڈ نے تیار کی ، اس میں جہاز کی اندرونی خرابی یا بیرونی حملے کے امکان کو بالکل مسترد کردیا گیا اور کہا گیا کہ most probably was caused by a criminal act or sabotage . یعنی بادی النظر میں یہ حادثہ کے بجائے سبوتاژ کی کاروائی معلوم ہوتی ہے۔ انکوائری بورڈ نے مزید تحقیقات کیلئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کی سفارش بھی کی۔ جائے وقوعہ پر کیمیائی ماہرین کو جو مواد ملا ، اس کا تجزیہ کرنے کے بعدانھوں نے جو رپورٹ دی، وہ یہ تھی کہ A chemical agent may well have been used to cause incapacitate of the flight crew . ، یعنی اغلب یہ ہے کہ جہاز کا عملے کو کسی کیمیاوی عمل سے بے ہوش کر دیا گیا، جس کی وجہ سے جہاز پر اس کا فضائی عملہ اپنا کنٹرول کھو چکا تھا۔ مختصر یہ کہ پاکستانی اور امریکی ائرفورس کی پہلی انکوائری رپورٹ ، جو 365 صفحات پر مشتمل تھی، جہاز میں کسی مکینیکل خرابی کے امکان کو یکسر مستردکردیا گیا۔یہ بات بھی عجیب وغریب تھی کہ امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کی حادثہ میں ہلاکت کے باوجود امریکی ایف بی آئی نے 17 اگست کے حادثہ میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔بلکہ بہت بعد میں جب وہ آئی بھی ، تب بھی اپنی پیشہ ورانہ شہرت کے برخلاف ایک گول مول رپورٹ دے کر خاموشی سے واپس چلی گئی۔ 17 اگست کے سانحہ کے بارے میں ان ’’سازشی کہانیوں‘‘ کو ایک لمحے کیلئے فراموش کر دیا جائے اور تاریخ و سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر اس سانحہ پر غورکیا جائے توبھی یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے اواخر میں جب افغانستان سے سوویت یونین کا انخلا ہو رہا تھا اور امریکہ ، سوویت یونین اور ان کے اتحادی اس خطہ کیلئے نیا منظر نامہ لکھ رہے تھے، تو اس میں جنرل ضیاالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ بھارت اور افغانستان کی انجنسیاں پہلے ہی انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ ’را ‘سمجھتی تھی، افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی کامیابی سے شہ پا کر مقبوضہ کشمیر میں بھی الحاق پاکستان کی تحریک میں تیزی آگئی ہے۔’ را ‘کے حوالہ سے یہ بات بروس رائیڈل نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہے۔ یوں ایک ہی وقت میں پاکستان کے خلاف کے جی بی ، سی آئی اے ، خاد اور’ را ‘ ایک صفحہ پر آ چکی تھیں۔ اندرونی اور بیرونی سازش کاروں کو پاکستان کی فوجی قیادت سے بدلہ چکانے کیلئے اس سے بہتر موقع نہیں مل سکتا تھا۔ عالمی بساط سیاست پر ایک دوسرے کے حریف ایک دوسرے کے خلاف کھلی اور خفیہ ہر طرح کی کارروائیاں کرتے ہیں، مگر زندہ قومیں اس طرح کی کاروائیوں کے پس پردہ کرداروں کو بہرصورت بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ بدنصیبی بحیثیت قوم شاید ہمارے نصیب میں ہی لکھی تھی کہ سانحہ1988 ء جس میں چیف آف آرمی سٹاف اور چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف سمیت فوج کے دودرجن اعلی فوجی افسر شہید ہوگئے ، آج تیس سال بعد بھی قوم کو معلوم نہیں کہ اس سانحہ کے پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ کارفرما تھے ۔ انااللہ وانا الیہ راجعون ۔ نہ دست وناخن قاتل ، نہ آستیں پہ نشاں نہ سرخی لب خنجر ، نہ رنگ نوک سناں کہیں نہیں ہے ، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *