جنرل اختر عبدالرحمان شہید، بچپن سے شہادت تک

تحریر : عادل حمید خان

جنرل اختر عبدالرحمٰن 11 جون 1924ء کو رام پور بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالرحمٰن خان پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ان گنے چنے ڈاکٹروں میں سے شامل تھے، جو مسلمان تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن کی عمر تین سال تھی، جب ان کے والد اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ گورنمنٹ کالج سے ایم اے کرنے کے بعد قیام پاکستان سے چند ماہ پہلے فروری1947ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کا شمار پاکستان کے ان فوجی افسروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے تینوں پاک بھارت جنگوں میں سرگرم حصہ لیا اور نمایاں فوجی خدمات انجام دیں۔ 1948ء میں پانڈو ٹیکری آپریشن میں حصہ لیا اور دس ہزار فٹ اونچی اس چوٹی پر پاکستان کا سبزہلالی پرچم لہرایا۔ 1945 ء میں لاہور کے برکی محاذ پر اپنی ذمے داریاں ادا کیں۔ اس محاذ پر بھارت فوج پر پہلی گولی ان کے حکم پر چلائی گی تھی۔ 1971ء میں قصور کے محاذ پر اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے او رقصر ہند پر پاکستان کا پرچم لہرایا۔ 1973 ء سے 1975 ء تک آزاد کشمیر میں بھارت کے خلاف مورچہ سنبھالے رکھا۔ تاہم ان کے فوجی کیریر کا اہم ترین دور 1979ء سے 1987ء تک کا ہے، جب وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔اس عرصہ میں، جہاں انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ہنرمندی سے آئی ایس آئی کو دنیا کی طاقت ور ترین خفیہ ایجنسیوں کی صف میں کھڑا کر دیا، وہاں ایسی فوجی حکمت عملی اختیار کی، جس کے نتیجہ میں سوویت فوجوں کو مآل کار افغانستان سے انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ نکلنا پڑا۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن کا بحیثیت آئی ایس آئی چیف کمال یہ بھی تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ساتھ مشترکہ طور پرآپریشن کرنے کے باوجود انہوں نے سی آئی اے کے کسی افسر اور اہل کارکو افغانستان میں براہ راست افغان گروپوں سے رابطہ نہیں کرنے دیا۔ یہ اعتراف امریکہ کے ممتاز ترین عسکری ماہر بروس رائیڈل نے اپنی کتاب What We Won: America’s Secret War in Afghanistan, 1979-89 میں اس طرح کیا کہ ’سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، کیونکہ کسی سی آئی اے اہل کار نے کبھی افغانستان کے اندر جا کے اپریٹ نہیں کیا تھا۔‘ بروس رائیڈل نے یہ اعتراف بھی کہ”یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی، جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو قیادت، تربیت اور فوجی حکمت عملی مہیا کی، اور یہ افغان عوام اور پاکستان تھے، جنہوں نے اس عظیم جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں۔ بطور آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمٰن نے افغان تنظیموں کے لیے فوجی اسلحہ کی ترسیل اور تقسیم کا نظام اتنا صاف اور شفاف بنایا کہ فوجی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کسی تنظیم کوکسی دوسری تنظیم سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر یہ بھی جنرل اختر عبدالرحمٰن ہی تھے، جنہوں نے امریکی حکام کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ افغان مزاحمتی تنظیموں کو سٹنگر میزائیل مہیا کریں، تاکہ وہ سوویت فوجوں کے فضائی حملوں کا موثر طور پر مقابلہ کر سکیں۔ جنرل اخترعبدالرحمٰن کا افغان مزاحمتی تنظیموں کو سٹنگر میزائیل مہیا کرنے کا فیصلہ افغان جنگ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا اور اس نے جنگ کا پلڑا افغان تنظیموں کے حق میں کر دیا۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کے قدم اکھڑ چکے تھے، جب امریکیوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے علیحدہ کرا دیا جائے۔ جنرل ضیاالحق مگر جنرل اختر عبدالرحمٰن کی فوجی خدمات کے دل سے معترف تھے، لہٰذا انہوں نے ان کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر دیا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کے اس عہدے پر تعینات ہونے سے اس عہدے کی طاقت اور فوجی اہمیت میں جو غیر معمولی اضافہ ہو گیا، اس کی ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن بظاہر آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے الگ ہو گئے، لیکن اس کے بعد بھی وہی افغان جنگ کے امور دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ جب جونیجوحکومت نے امریکیوں کی خوشنودی کیلئے معاہدہ جینیوا پر دستخط کرنے میں عجلت ظاہر کی تو جنرل اختر عبدالرحمٰن نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور اسے افغان جنگ کے ثمرات کو ضائع کرنے کے مترادف قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، پاکستان کو معاہدہ جینیوا پر دستخط کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور اس سے پہلے امریکا اور روس سے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کا مطالبہ منوانا چاہیے۔ ورنہ افغانستان میں خانہ جنگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا، اور افغانستان میں پھر سے کسی غیر ملکی حملہ آور کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جینیوا سمجھوتے پر جونیجو، ضیاالحق اختلاف ہی کے نتیجہ میں ہی جونیجو حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔ یہ الگ بات ہے کہ خود جنرل اختر عبدالرحمٰن کو جونیجو حکومت کے خاتمے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ جونیجو جینیوا سمجھوتہ پر اپنی حکومت کے بجائے پاکستان کے مفاد کو پیش نٖظر رکھیں۔ جنرل اختر عبدالرحمن پروفیشنل سولجر تھے۔ وہ چاہتے، تو آئی ایس آئی چیف کے طور پر اپنی غیرمعمولی کامیابیوں کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنا سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ خوشبو کو قید نہیں کیا جا سکتا ہے، 17 اگست1988ء کو ان کی شہادت کے بعد ان کے نام اور ان کے کام کی شہرت اس طرح چار دانگ عالم میں پھیلی کہ پوری دنیا ششدر رہ گئی۔آج عسکری حلقوں میں جنرل اختر عبدالرحمٰن ایک ایسے دیومالائی سپہ سالار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، جنہوں نے 20 ویں صدی کے آخر میں افغانستان میں سوویت یونین کا جنگی غرور اس طرح خاک میں ملایا کہ سپرپاور کے طور پراس کا نام اب صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا ہے۔