جنرل اختر عبدالرحمان شہید، بچپن سے شہادت تک

تحریر : عادل حمید خان

جنرل اختر عبدالرحمٰن 11 جون 1924ء کو رام پور بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالرحمٰن خان پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ان گنے چنے ڈاکٹروں میں سے شامل تھے، جو مسلمان تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن کی عمر تین سال تھی، جب ان کے والد اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ گورنمنٹ کالج سے ایم اے کرنے کے بعد قیام پاکستان سے چند ماہ پہلے فروری1947ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کا شمار پاکستان کے ان فوجی افسروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے تینوں پاک بھارت جنگوں میں سرگرم حصہ لیا اور نمایاں فوجی خدمات انجام دیں۔ 1948ء میں پانڈو ٹیکری آپریشن میں حصہ لیا اور دس ہزار فٹ اونچی اس چوٹی پر پاکستان کا سبزہلالی پرچم لہرایا۔ 1945 ء میں لاہور کے برکی محاذ پر اپنی ذمے داریاں ادا کیں۔ اس محاذ پر بھارت فوج پر پہلی گولی ان کے حکم پر چلائی گی تھی۔ 1971ء میں قصور کے محاذ پر اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے او رقصر ہند پر پاکستان کا پرچم لہرایا۔ 1973 ء سے 1975 ء تک آزاد کشمیر میں بھارت کے خلاف مورچہ سنبھالے رکھا۔ تاہم ان کے فوجی کیریر کا اہم ترین دور 1979ء سے 1987ء تک کا ہے، جب وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔اس عرصہ میں، جہاں انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ہنرمندی سے آئی ایس آئی کو دنیا کی طاقت ور ترین خفیہ ایجنسیوں کی صف میں کھڑا کر دیا، وہاں ایسی فوجی حکمت عملی اختیار کی، جس کے نتیجہ میں سوویت فوجوں کو مآل کار افغانستان سے انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ نکلنا پڑا۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن کا بحیثیت آئی ایس آئی چیف کمال یہ بھی تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ساتھ مشترکہ طور پرآپریشن کرنے کے باوجود انہوں نے سی آئی اے کے کسی افسر اور اہل کارکو افغانستان میں براہ راست افغان گروپوں سے رابطہ نہیں کرنے دیا۔ یہ اعتراف امریکہ کے ممتاز ترین عسکری ماہر بروس رائیڈل نے اپنی کتاب What We Won: America’s Secret War in Afghanistan, 1979-89 میں اس طرح کیا کہ ’سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، کیونکہ کسی سی آئی اے اہل کار نے کبھی افغانستان کے اندر جا کے اپریٹ نہیں کیا تھا۔‘ بروس رائیڈل نے یہ اعتراف بھی کہ”یہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی، جس نے سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو قیادت، تربیت اور فوجی حکمت عملی مہیا کی، اور یہ افغان عوام اور پاکستان تھے، جنہوں نے اس عظیم جنگ کا تمام تر خطرہ مول لیا اور قربانیاں دی تھیں۔ بطور آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمٰن نے افغان تنظیموں کے لیے فوجی اسلحہ کی ترسیل اور تقسیم کا نظام اتنا صاف اور شفاف بنایا کہ فوجی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کسی تنظیم کوکسی دوسری تنظیم سے کوئی شکایت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر یہ بھی جنرل اختر عبدالرحمٰن ہی تھے، جنہوں نے امریکی حکام کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ افغان مزاحمتی تنظیموں کو سٹنگر میزائیل مہیا کریں، تاکہ وہ سوویت فوجوں کے فضائی حملوں کا موثر طور پر مقابلہ کر سکیں۔ جنرل اخترعبدالرحمٰن کا افغان مزاحمتی تنظیموں کو سٹنگر میزائیل مہیا کرنے کا فیصلہ افغان جنگ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا اور اس نے جنگ کا پلڑا افغان تنظیموں کے حق میں کر دیا۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کے قدم اکھڑ چکے تھے، جب امریکیوں نے یہ کوشش شروع کر دی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کو آئی ایس آئی کی سربراہی سے علیحدہ کرا دیا جائے۔ جنرل ضیاالحق مگر جنرل اختر عبدالرحمٰن کی فوجی خدمات کے دل سے معترف تھے، لہٰذا انہوں نے ان کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر دیا۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کے اس عہدے پر تعینات ہونے سے اس عہدے کی طاقت اور فوجی اہمیت میں جو غیر معمولی اضافہ ہو گیا، اس کی ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن بظاہر آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے الگ ہو گئے، لیکن اس کے بعد بھی وہی افغان جنگ کے امور دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ جب جونیجوحکومت نے امریکیوں کی خوشنودی کیلئے معاہدہ جینیوا پر دستخط کرنے میں عجلت ظاہر کی تو جنرل اختر عبدالرحمٰن نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور اسے افغان جنگ کے ثمرات کو ضائع کرنے کے مترادف قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، پاکستان کو معاہدہ جینیوا پر دستخط کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور اس سے پہلے امریکا اور روس سے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کا مطالبہ منوانا چاہیے۔ ورنہ افغانستان میں خانہ جنگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا، اور افغانستان میں پھر سے کسی غیر ملکی حملہ آور کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جینیوا سمجھوتے پر جونیجو، ضیاالحق اختلاف ہی کے نتیجہ میں ہی جونیجو حکومت اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔ یہ الگ بات ہے کہ خود جنرل اختر عبدالرحمٰن کو جونیجو حکومت کے خاتمے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ جونیجو جینیوا سمجھوتہ پر اپنی حکومت کے بجائے پاکستان کے مفاد کو پیش نٖظر رکھیں۔ جنرل اختر عبدالرحمن پروفیشنل سولجر تھے۔ وہ چاہتے، تو آئی ایس آئی چیف کے طور پر اپنی غیرمعمولی کامیابیوں کو اپنی شہرت کا ذریعہ بنا سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ خوشبو کو قید نہیں کیا جا سکتا ہے، 17 اگست1988ء کو ان کی شہادت کے بعد ان کے نام اور ان کے کام کی شہرت اس طرح چار دانگ عالم میں پھیلی کہ پوری دنیا ششدر رہ گئی۔آج عسکری حلقوں میں جنرل اختر عبدالرحمٰن ایک ایسے دیومالائی سپہ سالار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، جنہوں نے 20 ویں صدی کے آخر میں افغانستان میں سوویت یونین کا جنگی غرور اس طرح خاک میں ملایا کہ سپرپاور کے طور پراس کا نام اب صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا ہے۔

ایمان ہی مسلمان سپاہی کا جذبہ محرکہ ہے

جہاز تو محض ایک ہتھیار ہے ، یہ پائلٹ پر ہے کہ وہ اس کو کس طرح استعمال کرتا ہے پائلٹوں اور انجینروں کے درمیان ایک انتہائی مضبوط رشتہ ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے بغیر مقصد کا حصول ممکن نہیں ۔
جنرل اختر عبدالرحمن شہید کا بحیثیت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی رسالپور پی اے ایف اکیڈیمی کے فلائنگ اور انجینرنگ کیڈٹوں کی پاسنگ اوٹ پریڈ سے خطاب، 23 جون 1988 ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایمان نہ صرف ہر قسم کی راہنمائی کا سرچشمہ ہے ، بلکہ امن ہو یا جنگ ، مسلمان سپاہی کو فعال بنانے کا واحد جذبہ ء محرکہ یہی ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان سپاہی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیڈٹوں کو اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط بنانے کی توفیق دے اور انہیں ہمت دے کہ وہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں ۔ پاکستان اپنے تمام پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے اور اس لحاظ سے پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر سختی سے کاربند ہے ۔ ہم نہ تو اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے ہیں ۔ تاہم ہمارے علاقے میں باہر سے جو ہتھیار آ رہے ہیں ،ان سے غافل نہیں ہو سکتے ۔ ہ میں ایک ایسی قوت مزاحمت تعمیر کرنا ہوگی، جو قومی وسائل کے اندر ہو ۔ ہمارے گردوپیش میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں ،ہم ان سے خود کو لا تعلق نہیں رکھ سکتے، لہذا ہ میں حالا ت پر کڑی نظر رکھنا ہو گی ۔ آپ لوگ اب ایک ایسے کیرئر کا آغاز کر رہے ہیں ، جو چیلنجوں سے بھرا پڑا ہے ۔ آپ فضائیہ کی ایسی برادری میں شامل ہو رہے ہیں ،جو اپنی جرات اور بہادری اور ہنر مندی اور اعلیٰ پیشہ ورانہ خوبیوں میں خاص شہرت کی حامل ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے پیش رووں کے کارناموں سے ولولہ حاصل کرکے ان کی قائم کی ہوئی روایات کو زیادہ درخشاں بنانے کی کوشش کریں گے ۔ اکیڈیمی میں کامیابی سے تربیت مکمل کرنے کے بعد آپ کے اندر مشن کی تکمیل کا احساس نہیں پیدا ہونا چاہیے، کیونکہ سپاہی کی تربیت کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ آپ خود کو مادروطن کے دفاع کے لیے تیار کریں ۔ جنگ کا نتیجہ بالآخر اس آدمی پر موقوف ہوتا ہے،جو توپ کے پیچھے بیٹھا اس کو چلا رہا ہوتا ہے ۔ پی اے ایف میں یہ نظریہ کچھ زیادہ ہی کارفرما ہوتا ہے،کیونکہ ہوائی جہاز محض ایک ہتھیار ہے ۔ اس کا موثر استعمال اس کے پائلٹ پرموقوف ہوتا ہے ۔ یہی نظریہ انجینرز پر بھی صادق آتا ہے، جو مشینوں کو قابل استعمال حالت میں رکھنے کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔ پائلٹوں اور انجینروں کے درمیان ایک انتہائی مضبوط رشتہ ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے بغیر اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکتا ۔ آپ کو اپنے ماتحتوں کی قیادت کرنا ہو گی ، جس کے لیے آپ ذاتی نمونہ ان کے سامنے پیش کریں گے تاکہ آپ کامیاب لیڈر اور کمانڈر ثابت ہو سکیں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے اپنے پیشے میں محنت اور لگن سے کام لے کر قومی افتخار کا باعث بنیں گے ۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو

موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، مسلمان موت سے نہیں ڈرتا

میں امیر آدمی نہیں ہوں لیکن مہینے کے مہینے پانچ شہیدوں کے بچوں کا خرچ آپ کی رجمنٹ کو دوں گا ۔ آگے آپ کی رجمنٹ کی مرضی ان بچوں کی تعلیم پرخرچ کرے ، ان کی ماوں کو دے یا جو مناسب سمجھے ۔ یہ ہدیہ ہمیشہ جب تک میں زندہ ہوں ، ان شا اللہ دیتا رہوں گا ۔

جنرل اختر عبدالرحمن شہید کا سیکنڈ فیلڈ رجمنٹ سے خطاب لاہور 1988ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب کمانڈنگ آفیسر صاحب ، جناب کرنل کمانڈنٹ سیکنڈ فیلڈ جنرل صالح محمد صاحب ، سردار صاحبان اور میرے عزیز بھائیو، آپ یقین جانیں ، میں آج آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں اس رجمنٹ کو دیکھنے کے لیے، آپ کو ملنے کے لیے، اور آپ کو یہ بتانے کے لیے کہ میرے اس رجمنٹ سے کیا تعلقات ہیں ۔ میں بالکل اپنی تعریف سننے کے لیے نہیں آیا ۔ تاہم میں شکرگزار ہوں کہ کرنل صاحب نے میرے بارے میں آپ کو بہت کچھ بتایا ۔ دراصل میں وہ رجمنٹ دیکھنے آیا ہوں ، جس کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں ۔ میں ان یادوں کو تازہ کرناچاہتا ہوں ۔ میری تو خواہش تھی کہ پروموشن کے فوراً بعد اپنی اس رجمنٹ کی طرف آوں ، جس سے میں نے اپنا کیرئر شروع کیا تھا ۔ لیکن کچھ ایسی وجوہات پیش آئیں کہ میں یہاں نہ آ سکا ۔ میں نے جب سیکنڈ فیلڈ رجمنٹ سے نوکری کا آغاز کیا تو اس وقت آپ میں سے کوئی نہیں تھا ۔ یہ اکتالیس سال پہلے کی بات ہے ۔ اس وقت آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ آپ کے سردارصاحبان بھی سب بعد کے ہیں پھر بھی میں آپ کے ذریعہ سے اور آپ کے سی او کے ذریعہ سے سیکنڈ فیلڈ رجمنٹ کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ آپ یقین جانئے، جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اچھے والدین کے جو تاثرات بچپن میں اس پر پڑتے ہیں وہ ساری عمر دور نہیں ہو سکتے ۔ یہ اثرات دماغ کا کمپیوٹر محفوظ کرلیتا ہے ۔ آج سے اکتالیس سال پہلے جب پارٹیشن نہیں ہوئی تھی، میں نے ادنیٰ سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے سفر شروع کیا تھا ۔ اس وقت اس رجمنٹ کا نام رائل انڈین آرٹلری تھا ۔ ہمارا سی او انگریز تھا ۔ ٹو آئی سی کرنیل سنگھ نامی ایک سکھ تھا ۔ پوری رجمنٹ میں صرف ایک بیڑی کمانڈر مسلمان تھا ۔ میری خوش قسمتی کہ میری پوسٹنگ اسی کے ماتحت ہوئی ۔ اس بیڑی کمانڈر کو میں آج خاص التجا کرکے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ ہیں جنرل راجہ محمد اسلم صاحب ۔ میں کسی آدمی یا کسی افسر کے سامنے تعریف کو اچھا نہیں سمجھتا مگر آپ یقین جانیے کہ میں آپ کے سامنے ایک سپاہی، ایک سولجر کے طور پر اس چیز کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نے زمانہ ء جنگ اور زمانہ ء امن میں یونٹ کی نوکری کی، آرٹلری کو کمانڈ کیا ، ڈویژن آرٹلری کی کمانڈ کی، وار میں بریگیڈ کمانڈ کی اور ہرکہیں جنرل اسلم صاحب کا تصور میرے دماغ میں رہا ، کیونکہ سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر انہوں نے مجھے پالا تھا اور پہلے دو تین سال میری تربیت کی تھی ۔ میں آپ کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے میری تربیت کی او ر میں اللہ کے فضل وکرم سے اس مرتبے تک پہنچا ۔ ان دنوں ہمارے بہت سے دوست تھے، انیس اور مہربان تھے ۔ ملنے والے تھے ۔ ان میں سے ایک صاحب مشہور سی او ہوئے اورآج آپ کے سیکنڈ کمانڈنٹ ہیں ۔ میرا اشارہ بریگیڈیر عطا ملک صاحب کی طرف ہے ۔ یہ رجمنٹ کی خوش قسمتی ہے کہ اس قسم کے بہادر سپاہی اس رجمنٹ میں موجود ہیں ، جنہوں نے اپنی قربانی دی، اپنے بچوں اور بھتیجوں کی قربانی دی ۔ میں یہاں کوئی لمبی چوڑی تقریر کرنے نہیں آیا ۔ بس آپ کو ملنے آپ کو دیکھنے آیا ہوں ۔ رجمنٹ کے سپاہیوں اور سردار صاحبان کو ملنے آیا ہوں ۔ لیکن چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنے زمانے کی کچھ کہانیاں سناوں ۔ میرے خیال میں آپ کی رجمنٹ کی تاریخ میں یہ سب چیزیں نہیں لکھی ہوں گی کیونکہ ہسٹری بعد میں لکھی جاتی ہے،جب بہت سی چیزیں بھول چکی ہوتی ہیں میں سیکنڈ لیفٹیننٹ اور لیفٹیننٹ کے زمانے کے چند واقعات آپ کو سنانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو پتا چلے کہ آپ کی رجمنٹ کی ہسڑی آپ کے سامنے کھڑی ہے ۔ زیادہ نہیں ، صرف دوواقعات سناوں گا، جنہیں سن کر آپ خوش ہوں گے ۔ لیکن ان واقعات سے پہلے میں اپنی خوشی کا اظہار کردوں ۔ آج جب میں نے آپ کی کوارٹر گارڈ دیکھی تو میری طبیعت خوش ہو گئی ۔ رجمنٹ کا جو معیار 1947-48 میں تھا، رجمنٹ ابھی تک اسے قائم رکھے ہوئے ہے ۔ پچھلے دو تین سال میں جتنی کوارٹر گارڈ دیکھی ہیں ، یہ بہترین تھی ۔ کسی زمانے میں صوبے دار میجر صاحب کوارٹر گارڈ سلیکٹ کیا کرتے تھے ۔ اب مجھے پتا نہیں کہ آج کل وہ سسٹم ہے یا نہیں ، لیکن جس کسی نے اسے سلیکٹ کیا ہے،اس نے بہت اچھا کیا ہے ۔ تو میں چاہتا ہوں کہ آپ کو 1947-48-49 ء کی باتیں بتاوں اور پھر جنرل اسلم صاحب سے کہوں کہ آپ کچھ بتائیں اور پھر ملک صاحب سے کہوں کہ آپ بھی بتائیں ۔ اس طرح آپ شام تک یہاں بیٹھے رہیں گے، اس لیے میں بس دو تین چیزیں ہی بتاوں گا ۔ ہماری رجمنٹ انڈیا سے آئی اور یہاں ویسٹرج راولپنڈی میں اس کو اکاموڈیشن ملی اور اس کے بعد گڑ بڑ شروع ہو گئی ۔ انڈیا میں ہندو اور سکھ مسلمانوں کو مار رہے تھے ۔ یہاں پر فوجی ایکشن تھا ۔ ہماری رجمنٹ کو آئی ایس ڈیوٹی دی گئی47 ء کا تقریباً سارا سال آئی ایس ڈیوٹی میں گزر گیا ۔ ہم پہلے چکوال تھے ۔ اس کے بعد پنڈ دادن خان پہنچے ۔ پنڈدادن خان سے ٹرینیں بھر بھر کر ہندووں اورسکھوں کو انڈیا لے جاتی تھی ۔ مال گاڑی کے کھلے ڈبے تھے ۔ ایسی ہی ایک ٹرین جا رہی تھی، جس میں مال گاڑی کے بیالیس ڈبے لگے ہوئے تھے ۔ ہر ایک میں پتا نہیں سو سو، دودوسو آدمی بیٹھے تھے ۔ یہ سب اردگرد کے مال دار ہندوتھے اور اپنے مال واسباب سمیت جا رہے تھے ۔ رجمنٹ سے حکم ملا کہ نمبر 6 بیڑی اس کو اسکوارٹ دے گی ۔ نمبر 6 بیڑی میں جو غریب مرغا نظر آیا، وہ میں تھا اور بیڑی کمانڈر نے مجھے حکم دیا کہ آپ ٹرین کے ساتھ جائیں ۔ میں اپنی گارڈ لے کر گیا ۔ حالات بہت خراب تھے ۔ کامونکے کے اوپر جا کر لوگوں کے ٹرین پر حملہ کردیا ۔ یہ ہندووں کی کارروائی کا ردعمل تھا ۔ ہندوستان کے بہت سے مسلمانوں کی ٹرینوں کو بیاس کے پل کے اوپر کھڑی کرکے ہندووں اور سکھوں نے اس میں مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا اور ان کی لاشیں دریا میں پھینک دی تھیں ۔ مسلمان غصے میں بپھرے ہوئے تھے اور انہیں قابو کرنا ناممکن تھا ۔ میں سٹیشن کے اندر ایک کمرے میں چلا گیا ۔ سٹیشن کے قریب سے ہی ایک سڑک گزرتی تھی ۔ سڑک پر سے ہندووں کا ایک قافلہ گزر رہا تھا ، جس کے ساتھ سکھ فوجیوں کی کمپنی تھی ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بہت سے ہندووں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں تو ماجرا پوچھا ۔ انہیں پتا چلا کہ ہندووں کی ٹرین پر حملہ ہوا ہے ۔ ایک سکھ کپتان غصے میں آ گیا اور سٹیشن پر حملہ کر دیا ۔ کہنے لگا ، اوسی ٹرین کدھر ہے ۔ سٹیشن والوں نے سب دروازے اندر سے بند کر رکھے تھے ۔ میں اندر تھا اور لاہور سے مدد کی درخواست کر رہا تھا ۔ لیکن مجھے بیڑی کمانڈر نے سکھا رکھا تھا کہ کمرے کے اندر نہیں مرنا، باہر مرنا ہے ۔ میں دروازہ کھول کر باہر نکل آیا ۔ میرے جوانوں کو کچھ علم نہ تھا ۔ یہ سب کچھ ایک دو منٹ کے اندر ہو گیا ۔ میں باہر نکلا تو پوری سیکشن دروازے کے اوپر کھڑی تھی ۔ انہوں نے مجھے پکڑ لیا ۔ سکھ کیپٹن نے گولی چلانے کا حکم دیا ۔ سپاہی نے راءفل اٹھائی اور میرا نشانہ لیا ۔ میرے ساتھ ہی ایک رنگروٹ کھڑا تھا ۔ اس کا نام مرتضیٰ تھا ۔ وہ اسی رجمنٹ اسی بیڑی کا تھا ۔ اس کے پاس راءفل تو تھی لیکن ایمونیشن نہیں تھا ۔ اس نے دس گز پیچھے ہٹ کر خالی راءفل کیپٹن کے سامنے کی اور کہا کہ اگر تم میرے صاب کو مارو گے تو میں تمہارے صاب کو مار دوں گا ۔ میں نے سرنڈر نہیں کیا، یہ بات اللہ جانتا ہے، یا میں جانتا ہوں یا مرتضیٰ ۔ میں ان آدمیوں کے مقابلے میں کافی طاقت ور تھا ۔ ان دنوں اتنا کمزور نہیں تھا ، جتنا اب ہوں ۔ لیکن ایک رنگروٹ کی سپرٹ دیکھئے کہ وہ کہیں سے بھاگ کر آیا اور خالی راءفل تان کر کہنے لگا کہ میں تمہارے صاب کو مار دوں گا ۔ یہ ہے آپ کی روایت اور یہ ہے ایک رنگروٹ کی سپرٹ ۔ یہ واقعہ میں نے بہت کم کرکے سنایا ہے اس کے بعد ہماری رجمنٹ کو کشمیر جانے کا حکم ملا ۔ پارٹیشن ہو چکی تھی ۔ نمبر 6 بیڑی کو کوہالہ برج پر قبضہ کرنے کاحکم ملا اور ہم نے اس پل پر قبضہ کر لیا ۔ ہ میں یہ ہدایت ملی کہ کوہالہ برج سے آگے ساری پیش قدمی رات کے وقت ہونی ہے ۔ رات کو ہ میں گاڑیوں کی مین لاءٹس جلانے کا حکم نہیں تھا ۔ صرف سائیڈز کی چھوٹی لاءٹیں جلا سکتے تھے ۔ ہم نے سورج غروب ہونے کے بعد کوہالہ پل کراس کیا اور رات ہی رات میں چکوٹی تک چلے گئے ۔ اس رات لاءٹس کے بغیر سفر کرنے کا یہ پہلا موقع تھا ۔ اللہ کے فضل وکرم سے راستے میں کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ۔ جب ہم چکوٹی پہنچے تو رات کے دو بجے تھے ۔ صبح کرنل ملر صاحب کو ٹروپس دیکھنے آنا تھا ۔ مجھے حکم ملا کہ سڑک پر کرنل صاحب کو ریسیو کروں ۔ میں انہیں پہلے سے نہیں جانتا تھا ۔ خیر ، ان کا استقبال کیا، وہ بولے، میں یہاں کا کمانڈر ہوں ۔ وہ خاصے ناراض لگتے تھے ۔ میں نے کہا ، سر ، آپ پریشان لگتے ہیں ۔ وہ کہنے لگے ، آپ کی گنیں رات کے وقت یہاں آ جانی چاہییں تھیں ، ابھی تک گنیں کیوں نہیں پہنچیں ۔ میں نے کہا ، سر گنز آ چکی ہیں ۔ وہ کہنے لگے ، کہاں ہیں ۔ مجھے تو کوئی گن نظر نہیں آ رہی ۔ میں نے کہا ، سر گنز یہیں ہیں ۔ وہ بولے ، لیکن توپوں کو ایکشن میں ہونا چاہیے تھا ۔ میں نے کہا ، سر توپیں ایکشن میں ہیں ۔ کرنل صاحب بہت حیران ہوئے اورادھر ادھر دیکھنے لگے ۔ میں نے کہا، سر ، آپ ٹروپس کے عین بیچ میں کھڑے ہیں ۔ ہم نے ساری رات بغیر لاءٹوں کے سفر کیا ۔ دو بجے اپنی منزل پر پہنچے ۔ صبح تک مورچے کھود کر تیار کیے ۔ انہیں کیموفلاج کیا اور رجمنٹ کا سی او ٹروپس کے درمیان کھڑا تھا او راسے پتا نہیں تھا کہ گنیں کہاں رکھی ہیں ۔ میں آپ کو مختصراً بتا رہا ہوں ۔ یہ سلسلہ جاری رہا ۔ اب ہ میں رات ہی کو پہاڑی پر ایک پوسٹ تک جانا تھا ۔ راستہ نامعلوم ۔ راستے سے ناواقفیت کی وجہ سے ایک آپریٹر اور سگنلر کو ساتھ لے کر چلا ۔ اس وقت 48 سیٹ ہوتے تھے ۔ میں نے لائن کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ لائن نہیں ہے ۔ صرف تھوڑی سی ہے ۔ ادھر ہ میں جلدی پہنچنے کا حکم مل چکا تھا ۔ سگنل کے افسر بھی بیٹھے تھے ۔ میں رات کو ادھر ادھر بھٹکتا صبح کے وقت پہاڑی پر پہنچا ۔ ادھر دل میں خطرہ کہ لائن نہیں ہے اور پیغام رسانی کا کوئی ذریعہ نہیں ۔ وائرلیس پہاڑی علاقے میں کام نہیں کرتا ۔ بہرحال میں صبح دم اپنے کمپنی کمانڈر کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، آپ کا آبزرور لیفٹیننٹ اختر ، یہاں پہنچ گیا ہوں ۔ میں نے سیٹ آن کیا، پرزے سیٹ کیے ۔ اس میں کوئی خرابی تھی ۔ فاصلہ بھی زیادہ تھا ۔ کوئی پندرہ بیس منٹ بعد نائیک حنیف نظر آیا ۔ کہنے لگا، سر ٹیلی فون کہاں لگاوں ۔ میں حیران رہ گیا ۔ پوچھا ، لائن ہے ;238; ۔ اس نے کہا ، یس سر ۔ اب اس نے لائن کہاں سے لی، کیبل کدھر سے لایا ، رات کے وقت کیسے یہاں پہنچا، مجھے کچھ پتا نہیں ، لیکن پندرہ منٹ کے اندر ہمارا سیٹ آن ہو چکا تھا ۔ تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ لڑائی کا طریقہ اور یہ لڑائی کی ٹریننگ بیڑی کمانڈر سے سیکھیں ۔ اس کے بعد میں نے 1971 کی لڑائی میں آٹھ یونٹس کا فائر ڈائریکٹ کیا ہے، لیکن میرا معیار مثالی رہا ہے ۔ میں نے آپ کو صرف دو چھوٹی چھوٹی باتیں بتائی ہیں ۔ اگر میں اپنے بیڑی کمانڈر سے کہوں تو وہ دوتین گھنٹے یہ باتیں بتاتے رہیں گے کہ اس رجمنٹ کا سٹینڈرڈ کیا تھا ۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آج بھی اس رجمنٹ کا سٹینڈرڈ وہی ہے ۔ آپ کی روایات وہی ہیں ۔ آپ نے پچھلے چالیس سال میں 1965ء اور 1971ء میں جو ریکارڈ بنائے ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے ۔ میں جنرل اسلم صاحب سے درخواست کروں گا کہ میرے بعد آپ سے خطاب کریں اور میری بتائی ہوئی باتوں میں اضافہ کریں ۔ میں آپ کی یونٹ کے لیے ایک چھوٹا سا ہدیہ آپ کے سی او کو دینا چاہتا ہوں وہ اپنی مرضی کے مطابق آپ کی رجمنٹ پر خرچ کریں ۔ میں نے دو واقعات آپ کو سنائے ہیں ۔ موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا ۔ موت دو دفعہ میرے قریب سے ہو کر گزری ہے ۔ ایک دفعہ اس وقت جب سکھ نے راءفل اٹھائی تھی اور دوسری دفعہ پانڈو کے اٹیک کے وقت ۔ میں امیر آدمی نہیں ہوں لیکن مہینے کے مہینے پانچ شہیدوں کے بچوں کا خرچ آپ کی رجمنٹ کو دوں گا ۔ آگے آپ کی رجمنٹ کی مرضی ان بچوں کی تعلیم پرخرچ کرے، ان کی ماوں کو دے یا جو مناسب سمجھے ۔ یہ ہدیہ ہمیشہ جب تک میں زندہ ہوں ، ان شا اللہ دیتا رہوں گا ۔